Advertisement

Responsive Advertisement

ہیڈ لائنز

انسانی دماغ کتنی انرجی استعمال کرتا ہے


 انسانی دماغ کتنی انرجی استعمال کرتا ہے؟

تحریر: قدیر قریشی
نومبر 09، 2023

یہ تو ظاہر ہے کہ دماغ ہمارے جسم کا ایک حصہ ہے اور تمام جسم کی طرح دماغ بھی انرجی کا استعمال کرتا ہے- ہمارا دماغ وزن کے حساب سے ہمارے جسم کا صرف دو فیصد ہے، لیکن دماغ ہمارے جسم کی کل انرجی کا بیس فیصد استعمال کرتا ہے- مثال کے طور پر اگر کوئی شخص ایک دن میں 1300 کیلوریز استعمال کر رہا ہے تو اس میں سے 260 کیلوریز دماغ میں استعمال ہوتی ہیں۔ اس کے علاوہ دل دن بھر میں جو خون جسم میں پمپ کرتا ہے اس کا پندرہ فیصد خون دماغ کو سپلائی ہوتا ہے اور ہمارے جسم میں آکسیجن کی کل کھپت کا بیس فیصد بھی دماغ میں استعمال ہوتا ہے

دماغ کو اس قدر انرجی کی ضرورت کیوں پیش آتی ہے؟
ہمارے دماغ میں لگ بھگ 86 ارب نیورونز ہوتے ہیں جو اپنے الیکٹرک سگنل کو دوسرے نیورونز تک بھیجنے کے لیے ایسے مالیکیول خارج کرتے ہیں جنہیں نیوروٹرانسمٹرز کہا جاتا ہے- ان نیوروٹرانسمٹرز کو بنانے کے لیے دماغ کو آکسیجن اور گلوکوز کی ضرورت ہوتی ہے- شاید آپ کو یہ محسوس ہو کہ جب ہم کسی گہری سوچ میں ہوتے ہیں یا 'دماغی کام کر رہے ہوتے ہیں (مثلاً فزکس سٹڈی کر رہے ہوں یا یہ کیلکولیٹ کر رہے ہوں کہ پاکستان کو ورلڈ کپ کے سیمی فائنل میں پہنچنے کے لیے انگلینڈ کو کتنے رنز سے ہرانا ہو گا) تو دماغ میں انرجی زیادہ استعمال ہوتی ہو گی- لیکن یہ درست نہیں ہے- جب ہم بظاہر کوئی دماغی کام نہیں کر رہے ہوتے یا جب ہم سو رہے ہوتے ہیں تب بھی دماغ میں انرجی کی کھپت اتنی ہی رہتی ہے جتی کہ کسی دماغی کام کے دوران ہوتی ہے

انسانوں پر ایسے تجربات کرنا ممکن نہیں ہے جن میں ان کے دماغ کے مختلف حصوں میں انرجی کی کھپت کا براہِ راست مشاہدہ کیا جا سکے- البتہ چوہوں کے دماغوں پر تجربات سے ماہرین نے یہ معلوم کیا ہے کہ چوہوں کے دماغ میں استعمال ہونے والی انرجی کا لگ بھگ 75 فیصد برقی سگنلز پیدا کرنے اور نیوروٹرانسمیٹرز بنانے میں صرف ہوتا ہے- باقی ماندہ انرجی نیورونز اور دوسرے سپورٹ سیلز (مثلاً گلیئل سیلز) کی دیکھ بھال اور ان سے فضلے کے اخراج میں استعمال ہوتی ہے- چوہوں کے جسم کے دماغ میں نیورونز کے لیول پر بیالوجیکل تعاملات انسانی دماغ کے بیالوجیکل تعاملات سے بہت زیادہ ملتے جلتے ہیں اس لیے ماہرین کو یقین ہے کہ انسانوں کے دماغ میں بھی انرجی کا استعمال کم و بیش اسی تناسب سے ہوتا ہے

نیورنز کی سگنلنگ میں اس قدر انرجی کیوں خرچ ہوتی ہے؟ 
 
اس کی وجہ یہ ہے کہ جب بھی برقی سگنل ایک نیورون سے دوسرے نیورون تک پہنچتا ہے تو اسے نیورون کی سائنیپس (Synapse) سے گذرنا پڑتا ہے- سائنیپس دو خلیوں کے درمیان ایک دیوار سمجھ لیجیے جس میں سے برقی سگنل کا گذرنا مشکل ہوتا ہے- جب ایک نیورون کا برقی سگنل اس سائنیپس تک پہنچتا ہے تو یہاں اس برقی سگنل کی وجہ سے نیوروٹرانسمٹر خارج ہوتے ہیں- یہ نیوروٹرانسمٹرز اگلے خلیے کی سائنیپس میں موجود ریسیپٹرز میں ڈیٹیکٹ ہوتے ہیں جس کے نتیجے میں اگلا نیورون برقی سگنل پیدا کرتا ہے (جسے نیورون کا فائر کرنا کہا جاتا ہے). گویا ہر دو نیورونز کے درمیان برقی سگنل کی ٹرانسفر کا میکانزم یہ ہوتا ہے کہ برقی سگنل نیوروٹرانسمٹر خارج کرتا ہے (جس کے لیے انرجی درکار ہوتی ہے) اور اگلا خلیہ ان نیوروٹرانسمٹرز کو ڈیٹیکٹ کر کے دوبارہ برقی سگنل پیدا کرتا ہے (جس میں مزید انرجی خرچ ہوتی ہے)۔ انسانی دماغ میں سائنیپسز کی تعداد دس ہزار کھرب سے بھی زیادہ ہوتی ہیں اور ہر سائنیپس میں سگنل کی ٹرانسمشن کے لیے انرجی درکار ہوتی ہے

دماغ کے مختلف حصوں میں انرجی کی ڈیمانڈ:
دماغ کے مختلف حصوں میں انرجی کی ڈیمانڈ مختلف ہوتی ہے- مثال کے طور پر بصارت اور آواز کی پراسیسنگ دماغ کے جن حصوں میں ہوتی ہے ان حصوں میں انرجی کی ڈیمانڈ زیادہ ہوتی ہے- اس کے برعکس دماغ کے جن حصوں میں سونگھنے کے سگنلز کی پراسیسنگ ہوتی ہے ان حصوں میں انرجی کی ڈیمانڈ نسبتاً کم ہوتی ہے-

دماغ کی بڑی خامی:
دماغ کے ساتھ ایک بہت بڑا مسئلہ یہ ہے کہ نیورونز میں ریزرو انرجی بہت ہی کم ہوتی ہے- ہمارے مسلز میں بہت سی انرجی کاربوہائیڈریٹس کی صورت میں محفوظ ہوتی ہے- آکسیجن کی محرومی کی صورت میں بھی مسلز کے خلیے بہت دیر تک زندہ رہے سکتے ہیں- اس کے برعکس دماغ میں چونکہ انرجی کی ضرورت ہر وقت ہوتی ہے لیکن کوئی اضافی انرجی سٹور نہیں ہوتی اس لیے دماغ کو ہر وقت وافر مقدار میں خون کی سپلائی ضروری ہوتی ہے- اگر کسی وجہ سے دماغ کے کسی حصے کو خون کی سپلائی چند منٹ کے لیے بھی منقطع ہو جائے تو نیورونز مرنے لگتے ہیں اور پھر دماغ کا وہ حصہ کبھی بھی دوبارہ کام نہیں کر پاتا- اسی وجہ سے دل کے دورے یا سٹروک کی صورت میں چند منٹوں کے اندر اندر موت واقع ہو سکتی ہے

نیورونز میں اضافی انرجی سٹورڈ کیوں نہیں ہوتی؟
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ارتقاء کے پراسیس میں اگر مسلز اس طرح ارتقاء پذیر ہو سکتے ہیں کہ ان میں بہت سی اضافی انرجی سٹور ہوتی ہے (اور خون کی سپلائی منقطع ہونے کی صورت میں مسلز فوری طور پر نہیں مرتے) تو پھر دماغ اس طرح ارتقاء پذیر کیوں نہیں ہو پایا کہ دماغ میں بھی بہت سی اضافی انرجی سٹور ہو اور خون کی عدم فراہمی سے دماغ چند منٹوں میں ہی نہ مر جائے؟ اس کی وجہ غالباً یہ ہے کہ کسی فوری خطرے سے بچنے کے لیے دماغ کو ملی سیکنڈز میں یہ فیصلہ کرنا ہوتا ہے کہ اب کیا کرنا ہے اور پھر جسم کے مسلز کو فوری طور پر حرکت کے احکامات جاری کرنا ہوتے ہیں- اس دوران کروڑوں نیورونز ایک دوسرے سے سگنلز کا تبادلہ کرتے ہیں- ہمارے اجداد کی بقاء کے لیے یہ بات زیادہ اہم رہی ہے کہ یہ فیصلے کم سے کم وقت میں ہو پائیں جس کے لیے یہ ضروری ہے کہ نیورونز کے درمیان سگنلز جلد سے جلد ٹرانسفر ہو سکیں- ایسا ہونا تب ہی ممکن ہے اگر نیورونز کا سائز چھوٹے سے چھوٹا ہو اور ان کا آپسی فاصلہ کم سے کم رہے- 

اگر نیورونز میں اضافی انرجی سٹور کرنے کا سسٹم ہو تو نیورونز کا سائز بڑا ہو جائے گا اور نیورونز کا آپسی فاصلہ بھی زیادہ ہو جائے گا- بڑے نیورونز سے سگنل فائر کرنے کے لیے زیادہ چارج درکار ہو گا اور یہ زیادہ چارج پیدا کرنے کے لیے زیادہ انرجی درکار ہو گی جس کے لیے خون کی اضافی رگیں درکار ہوں گی- ان تمام کا مجموعی نتیجہ یہ ہو گا کہ ایک تو نیورونز کے بڑے ہو جانے کی وجہ سے اور ان میں فاصلے زیادہ ہو جانے کی وجہ سے سگنل کی ٹرانسمشن میں زیادہ وقت لگے گا۔ اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ دماغ کی پراسیسنگ سست رفتار ہو جائے گی اور ہمارا ری ایکشن ٹائم بھی اسی قدر سست ہو جائے گا۔ یعنی ہم خطرے سے نمٹنے میں دیر لگا دیں گے جس کا نتیجہ جان لیوا ہو سکتا ہے- دوسرا نتیجہ یہ ہو گا کہ ہماری کھوپڑی کا سائز بہت بڑا ہو جائے گا- لیکن اگر بچوں کا دماغ بڑا ہو گا تو ماں بچے کو پیدائش کے دوران جسم سے خارج نہیں کر پائے گی جس کا نتیجہ ماں اور بچے دونوں کی موت ہو گا

گویا ہمارے اجداد پر ارتقائی پریشر زیادہ سے زیادہ نیورونز کو اتنی بڑی کھوپڑی میں سمانے کا تھا جس سے بچے کی پیدائش ممکن ہو سکے- اس ارتقائی پریشر کا نتیجہ یہ ہوا کہ نیورونز میں اضافی انرجی سٹور کرنے کی جگہ رکھنا ممکن نہیں ہو پایا- یہی وجہ ہے کہ دماغ کو چند منٹ کے لیے بھی خون کی سپلائی منقطع ہو تو موت واقع ہو سکتی ہے

0 Comments

Type and hit Enter to search

Close